MOJZA
سعودی عرب کے خوبصورت شہر ابھاء میں ایک لڑکی کی شادی تھی مغرب کی نماز کے بعد اسکا میک اپ وغیرہ کیا گیا جیسا کہ دلہن کو سجایا جاتا ہے ۔ اسی اثنا میں ان لڑکی نے عشاء کی اذان سنی اس نے نیچے جانے سے پہلے عشاء کی نماز پڑھنا مناسب سمجھا۔ لڑکی نے اپنی ماں سے کہا کہ میں وضو کر کے نماز پڑھنے لگی ہوں۔۔۔۔۔!
تو لڑکی کی ماں حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے بولی کیا تم پاگل ہو ؟ مہمان تمہیں دیکھنے کے لیے انتظار کر رہے ہیں اور تمہارے میک اپ اور بناؤ سنگار کا کیا ہو گا؟ یہ تو سارا پانی سے دھل جائے گا میں تمہاری ماں ہوں اور تمہیں نماز نہ پڑھنے کا حکم دیتی ہوں اور کہا واللہ اگر تم نے ابھی وضو کیا تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی ــــــــــــــــــــــــ!
بیٹی نے کہا اللہ کی قسم میں یہاں سے تب تک نہ جاؤں گی جب تک نماز ادا نہ کر لوں، میں کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنے اللہ کی نا فرمانی نہیں کر سکتی ۔ اسکی ماں نے کہا مہمان تمہیں میک اپ کے بغیر دیکھ کر کیا کہیں گے؟ وہ تمہارا مذاق اڑائیں گے اور تم کسی کو بھی اچھی نہیں لگو گی ـــــــــــــــــــــــ-!
لڑکی ماں کی بات سنکر مسکراتے ہوئے بولی آپ اس لیے پریشان ہو رہی ہو کہ میں لوگوں کی نظر میں خوبصورت نہیں لگوں گی لیکن میں تو اپنے پیدا کرنے والے کی نظر میں خوبصورت بننا چاہتی ہوں۔،،!
لڑکی نے وضو کیا جس کی وجہ سے اسکا سارا میک اتر گیا لیکن اسے میک اپ خراب ہونے کا کوئی افسوس نہیں تھا اور نہ ہی لوگوں کے اچھا برا کہنے کا کوئی خیال تھا کیوں کہ اسے لوگوں سے زیادہ اپنے اللہ سبحانہُ و تعالی کے سامنے سرخرو ہونا تھا ــــــــــــــــــــ!
اس نے نماز شروع کی اور حالت سجدہ میں وہ لطف پایا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اسے تو پتا بھی نہیں تھا کہ یہ اسکی زندگی کا آخری سجدہ ہو گا، جی ہاں وہ لڑکی حالت سجدہ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔ کیا خوبصورت اور عظیم اختتام تھا۔۔۔!
وہ اللہ کو قریب کرنا چاہتی تھی اللہ عزوجل نے اُسے اس حالت سجدہ میں اپنے قریب کیا جہاں ہر مسلمان اللہ کے قریب ہوتا ہے۔۔۔!
اگر آپ میں سے کوئی اس لڑکی کی جگہ ہوتا تو کیا کرتا یقیناً نماز کو ہی چھوڑا جاتا، جبکہ زندگی کا ایک منٹ کا بھی بھروسہ نہں ہے ۔
اگر آپ اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلی فرمانبرداری اسی کی ہے دنیا کے کاموں کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا پر دنیاوی کاموں کے لیے اللہ کو (جس نے پیدا کیا اور مارے گا اور پھر دوبارہ زندہ کرے گا) بھول جانا سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔۔۔۔۔!
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ایک بار ایک یہودی ہمارے پیارے نبی محمّد صلی الله علیه وسلم کا مہمان بنا- حضور صلی الله علیه وسلم کا قاعدہ تھا کہ اپنے مہمانوں کو اپنے گھر ٹھہراتے تھے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام خود کرتے تھے-
اس یہودی کو بھی ہمارے حضور صلی الله علیه وسلم نے اپنے گھر میں ہی ٹھہرایا، اسے اچھا کھانا کھلایا اور سونے کے لیے صاف ستھرا بستر دیا-
یہودی ہمیشہ سے مسلمانوں کے دشمن رہے ہیں- یہ یہودی بھی حضور صلی الله علیه وسلم کو ستانے کا ارادہ لے کر آیا تھا- اسے رات کا کھانا کھلا کر حضور صلی الله علیه وسلم اپنے حجرے میں تشریف لے گئے تو اس نے بستر پر پیشاب کیا، گندگی پھیلائی اور صبح ہونے سے پہلے بھاگ گیا-
صبح ہونے پر حضور صلی الله علیه وسلم مہمان کا حال پوچھنے تشریف لائے تو یہودی کی شرارت کا حال معلوم ہوا- آپ صلی الله علیه وسلم چاہتے تو سوار بھیج کر اس شریر کو گرفتار کروا سکتے تھے لیکن آپ صلی الله علیه وسلم نے صبر کیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر صاف کرنے لگے- اب خدا کا کرنا کیا ہوا کہ جس وقت یہودی وہاں سے بھاگا تو گھبراہٹ میں اپنی تلوار وہیں بھول گیا- راستے میں تلوار کا خیال آیا تو واپس پلٹا کہ شاید ابھی وہاں کوئی نہ آیا ہو جہاں مجھے ٹھہرایا گیا تھا اور دیوار کے اوپر سے اندر جھانکنے لگا-
یہ وہ وقت تھا جب الله کے محبوب صلی الله علیه وسلم اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر دھو رہے تھے- یہودی کی اپنی قوم کے سرداروں کا یہ حال تھا کہ غرور کی وجہ سے وہ اپنا جوتا بھی خود صاف نہ کرتے تھے، اپنا معمولی سے معمولی کام بھی غلاموں اور لونڈیوں سے کراتے تھے اور یہاں دونوں جہانوں کے سردار گندے بستر کو اپنے مبارک ہاتھوں سے دھو رہے تھے-
یہودی کے دل پر اس بات کا بہت اثر ہوا اور اسے یقین آ گیا کہ حضور صلی الله علیه وسلم ضرور الله کے سچے رسول ہیں- کسی معمولی آدمی کا اخلاق اتنا اچھا نہیں ہو سکتا- وو بے اختیار پکار اٹھا-" یا رسول الله! مجھ سے سخت غلطی ہوئی- میں معافی مانگتا ہوں اور کلمہ پڑھ کر سچے دل سے مسلمان ہوتا ہوں-"
حضور صلی الله علیه وسلم نے اسے تسلی دی کہ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے اور پھر اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیا-
=========================================================
ایک بار ایک یہودی ہمارے پیارے نبی محمّد صلی الله علیه وسلم کا مہمان بنا- حضور صلی الله علیه وسلم کا قاعدہ تھا کہ اپنے مہمانوں کو اپنے گھر ٹھہراتے تھے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام خود کرتے تھے-
اس یہودی کو بھی ہمارے حضور صلی الله علیه وسلم نے اپنے گھر میں ہی ٹھہرایا، اسے اچھا کھانا کھلایا اور سونے کے لیے صاف ستھرا بستر دیا-
یہودی ہمیشہ سے مسلمانوں کے دشمن رہے ہیں- یہ یہودی بھی حضور صلی الله علیه وسلم کو ستانے کا ارادہ لے کر آیا تھا- اسے رات کا کھانا کھلا کر حضور صلی الله علیه وسلم اپنے حجرے میں تشریف لے گئے تو اس نے بستر پر پیشاب کیا، گندگی پھیلائی اور صبح ہونے سے پہلے بھاگ گیا-
صبح ہونے پر حضور صلی الله علیه وسلم مہمان کا حال پوچھنے تشریف لائے تو یہودی کی شرارت کا حال معلوم ہوا- آپ صلی الله علیه وسلم چاہتے تو سوار بھیج کر اس شریر کو گرفتار کروا سکتے تھے لیکن آپ صلی الله علیه وسلم نے صبر کیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر صاف کرنے لگے- اب خدا کا کرنا کیا ہوا کہ جس وقت یہودی وہاں سے بھاگا تو گھبراہٹ میں اپنی تلوار وہیں بھول گیا- راستے میں تلوار کا خیال آیا تو واپس پلٹا کہ شاید ابھی وہاں کوئی نہ آیا ہو جہاں مجھے ٹھہرایا گیا تھا اور دیوار کے اوپر سے اندر جھانکنے لگا-
یہ وہ وقت تھا جب الله کے محبوب صلی الله علیه وسلم اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر دھو رہے تھے- یہودی کی اپنی قوم کے سرداروں کا یہ حال تھا کہ غرور کی وجہ سے وہ اپنا جوتا بھی خود صاف نہ کرتے تھے، اپنا معمولی سے معمولی کام بھی غلاموں اور لونڈیوں سے کراتے تھے اور یہاں دونوں جہانوں کے سردار گندے بستر کو اپنے مبارک ہاتھوں سے دھو رہے تھے-
یہودی کے دل پر اس بات کا بہت اثر ہوا اور اسے یقین آ گیا کہ حضور صلی الله علیه وسلم ضرور الله کے سچے رسول ہیں- کسی معمولی آدمی کا اخلاق اتنا اچھا نہیں ہو سکتا- وو بے اختیار پکار اٹھا-" یا رسول الله! مجھ سے سخت غلطی ہوئی- میں معافی مانگتا ہوں اور کلمہ پڑھ کر سچے دل سے مسلمان ہوتا ہوں-"
حضور صلی الله علیه وسلم نے اسے تسلی دی کہ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے اور پھر اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیا-
واقعہ معراج ۔ حیات اطہر کا اہم ترین معجزہ: