ISLAMIC PICTURES


اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقی مہنیوں میں اتنے روزے نہیں رکھتے جتےنے شعبان میں رکھتے ہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار رہتے ہیں یہ مہینہ رجب اور رمضان کے مابین ہےاور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے ہاں اٹھائے جاتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعما ل روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔ اسے نسائی نے روایت کیا ( الترغیب و التر ہیب صفحہ ۴۲۵)
اللہ رب العزت سے دعا ہے اللہ ہمیں اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھ کر اللہ کا قرب حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
MOJZA

سعودی عرب کے خوبصورت شہر ابھاء میں ایک لڑکی کی شادی تھی مغرب کی نماز کے بعد اسکا میک اپ وغیرہ کیا گیا جیسا کہ دلہن کو سجایا جاتا ہے ۔ اسی اثنا میں ان لڑکی نے عشاء کی اذان سنی اس نے نیچے جانے سے پہلے عشاء کی نماز پڑھنا مناسب سمجھا۔ لڑکی نے اپنی ماں سے کہا کہ میں وضو کر کے نماز پڑھنے لگی ہوں۔۔۔۔۔!


تو لڑکی کی ماں حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے بولی کیا تم پاگل ہو ؟ مہمان تمہیں دیکھنے کے لیے انتظار کر رہے ہیں اور تمہارے میک اپ اور بناؤ سنگار کا کیا ہو گا؟ یہ تو سارا پانی سے دھل جائے گا میں تمہاری ماں ہوں اور تمہیں نماز نہ پڑھنے کا حکم دیتی ہوں اور کہا واللہ اگر تم نے ابھی وضو کیا تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی ــــــــــــــــــــــــ!

بیٹی نے کہا اللہ کی قسم میں یہاں سے تب تک نہ جاؤں گی جب تک نماز ادا نہ کر لوں، میں کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنے اللہ کی نا فرمانی نہیں کر سکتی ۔ اسکی ماں نے کہا مہمان تمہیں میک اپ کے بغیر دیکھ کر کیا کہیں گے؟ وہ تمہارا مذاق اڑائیں گے اور تم کسی کو بھی اچھی نہیں لگو گی ـــــــــــــــــــــــ-!

لڑکی ماں کی بات سنکر مسکراتے ہوئے بولی آپ اس لیے پریشان ہو رہی ہو کہ میں لوگوں کی نظر میں خوبصورت نہیں لگوں گی لیکن میں تو اپنے پیدا کرنے والے کی نظر میں خوبصورت بننا چاہتی ہوں۔،،!

لڑکی نے وضو کیا جس کی وجہ سے اسکا سارا میک اتر گیا لیکن اسے میک اپ خراب ہونے کا کوئی افسوس نہیں تھا اور نہ ہی لوگوں کے اچھا برا کہنے کا کوئی خیال تھا کیوں کہ اسے لوگوں سے زیادہ اپنے اللہ سبحانہُ و تعالی کے سامنے سرخرو ہونا تھا ــــــــــــــــــــ!

اس نے نماز شروع کی اور حالت سجدہ میں وہ لطف پایا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اسے تو پتا بھی نہیں تھا کہ یہ اسکی زندگی کا آخری سجدہ ہو گا، جی ہاں وہ لڑکی حالت سجدہ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔ کیا خوبصورت اور عظیم اختتام تھا۔۔۔!

وہ اللہ کو قریب کرنا چاہتی تھی اللہ عزوجل نے اُسے اس حالت سجدہ میں اپنے قریب کیا جہاں ہر مسلمان اللہ کے قریب ہوتا ہے۔۔۔!
اگر آپ میں سے کوئی اس لڑکی کی جگہ ہوتا تو کیا کرتا یقیناً نماز کو ہی چھوڑا جاتا، جبکہ زندگی کا ایک منٹ کا بھی بھروسہ نہں ہے ۔

اگر آپ اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلی فرمانبرداری اسی کی ہے دنیا کے کاموں کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا پر دنیاوی کاموں کے لیے اللہ کو (جس نے پیدا کیا اور مارے گا اور پھر دوبارہ زندہ کرے گا) بھول جانا سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔۔۔۔۔!

------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ایک بار ایک یہودی ہمارے پیارے نبی محمّد صلی الله علیه وسلم کا مہمان بنا- حضور صلی الله علیه وسلم کا قاعدہ تھا کہ اپنے مہمانوں کو اپنے گھر ٹھہراتے تھے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام خود کرتے تھے-

اس یہودی کو بھی ہمارے حضور صلی الله علیه وسلم نے اپنے گھر میں ہی ٹھہرایا، اسے اچھا کھانا کھلایا اور سونے کے لیے صاف ستھرا بستر دیا-

یہودی ہمیشہ سے مسلمانوں کے دشمن رہے ہیں- یہ یہودی بھی حضور صلی الله علیه وسلم کو ستانے کا ارادہ لے کر آیا تھا- اسے رات کا کھانا کھلا کر حضور صلی الله علیه وسلم اپنے حجرے میں تشریف لے گئے تو اس نے بستر پر پیشاب کیا، گندگی پھیلائی اور صبح ہونے سے پہلے بھاگ گیا-

صبح ہونے پر حضور صلی الله علیه وسلم مہمان کا حال پوچھنے تشریف لائے تو یہودی کی شرارت کا حال معلوم ہوا- آپ صلی الله علیه وسلم چاہتے تو سوار بھیج کر اس شریر کو گرفتار کروا سکتے تھے لیکن آپ صلی الله علیه وسلم نے صبر کیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر صاف کرنے لگے- اب خدا کا کرنا کیا ہوا کہ جس وقت یہودی وہاں سے بھاگا تو گھبراہٹ میں اپنی تلوار وہیں بھول گیا- راستے میں تلوار کا خیال آیا تو واپس پلٹا کہ شاید ابھی وہاں کوئی نہ آیا ہو جہاں مجھے ٹھہرایا گیا تھا اور دیوار کے اوپر سے اندر جھانکنے لگا-

یہ وہ وقت تھا جب الله کے محبوب صلی الله علیه وسلم اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر دھو رہے تھے- یہودی کی اپنی قوم کے سرداروں کا یہ حال تھا کہ غرور کی وجہ سے وہ اپنا جوتا بھی خود صاف نہ کرتے تھے، اپنا معمولی سے معمولی کام بھی غلاموں اور لونڈیوں سے کراتے تھے اور یہاں دونوں جہانوں کے سردار گندے بستر کو اپنے مبارک ہاتھوں سے دھو رہے تھے-

یہودی کے دل پر اس بات کا بہت اثر ہوا اور اسے یقین آ گیا کہ حضور صلی الله علیه وسلم ضرور الله کے سچے رسول ہیں- کسی معمولی آدمی کا اخلاق اتنا اچھا نہیں ہو سکتا- وو بے اختیار پکار اٹھا-" یا رسول الله! مجھ سے سخت غلطی ہوئی- میں معافی مانگتا ہوں اور کلمہ پڑھ کر سچے دل سے مسلمان ہوتا ہوں-"

حضور صلی الله علیه وسلم نے اسے تسلی دی کہ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے اور پھر اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیا-

=========================================================
ایک بار ایک یہودی ہمارے پیارے نبی محمّد صلی الله علیه وسلم کا مہمان بنا- حضور صلی الله علیه وسلم کا قاعدہ تھا کہ اپنے مہمانوں کو اپنے گھر ٹھہراتے تھے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام خود کرتے تھے-

اس یہودی کو بھی ہمارے حضور صلی الله علیه وسلم نے اپنے گھر میں ہی ٹھہرایا، اسے اچھا کھانا کھلایا اور سونے کے لیے صاف ستھرا بستر دیا-

یہودی ہمیشہ سے مسلمانوں کے دشمن رہے ہیں- یہ یہودی بھی حضور صلی الله علیه وسلم کو ستانے کا ارادہ لے کر آیا تھا- اسے رات کا کھانا کھلا کر حضور صلی الله علیه وسلم اپنے حجرے میں تشریف لے گئے تو اس نے بستر پر پیشاب کیا، گندگی پھیلائی اور صبح ہونے سے پہلے بھاگ گیا-

صبح ہونے پر حضور صلی الله علیه وسلم مہمان کا حال پوچھنے تشریف لائے تو یہودی کی شرارت کا حال معلوم ہوا- آپ صلی الله علیه وسلم چاہتے تو سوار بھیج کر اس شریر کو گرفتار کروا سکتے تھے لیکن آپ صلی الله علیه وسلم نے صبر کیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر صاف کرنے لگے- اب خدا کا کرنا کیا ہوا کہ جس وقت یہودی وہاں سے بھاگا تو گھبراہٹ میں اپنی تلوار وہیں بھول گیا- راستے میں تلوار کا خیال آیا تو واپس پلٹا کہ شاید ابھی وہاں کوئی نہ آیا ہو جہاں مجھے ٹھہرایا گیا تھا اور دیوار کے اوپر سے اندر جھانکنے لگا-

یہ وہ وقت تھا جب الله کے محبوب صلی الله علیه وسلم اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر دھو رہے تھے- یہودی کی اپنی قوم کے سرداروں کا یہ حال تھا کہ غرور کی وجہ سے وہ اپنا جوتا بھی خود صاف نہ کرتے تھے، اپنا معمولی سے معمولی کام بھی غلاموں اور لونڈیوں سے کراتے تھے اور یہاں دونوں جہانوں کے سردار گندے بستر کو اپنے مبارک ہاتھوں سے دھو رہے تھے-

یہودی کے دل پر اس بات کا بہت اثر ہوا اور اسے یقین آ گیا کہ حضور صلی الله علیه وسلم ضرور الله کے سچے رسول ہیں- کسی معمولی آدمی کا اخلاق اتنا اچھا نہیں ہو سکتا- وو بے اختیار پکار اٹھا-" یا رسول الله! مجھ سے سخت غلطی ہوئی- میں معافی مانگتا ہوں اور کلمہ پڑھ کر سچے دل سے مسلمان ہوتا ہوں-"

حضور صلی الله علیه وسلم نے اسے تسلی دی کہ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے اور پھر اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیا-

 



واقعہ معراج ۔ حیات اطہر کا اہم ترین معجزہ:

--------------- ­--------------- ­--------------- ­------

واقعہ معراج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات اطہر کا اہم ترین واقعہ ، ایک عظیم الشان معجزہ ہے، جو انسانی عقل و قیاس کی حدود سے بالا تر ہے۔

اس رات کو اللہ عزوجل نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج شریف کی دولت عطا فرمائی اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت اور دوزخ...... کو ملا حظہ فرمایا اور چشمان مبارک سے اللہ عزوجل کا دیدار کیا۔ لہذا اس رات کو خوب عبادت میں گزارنا چاہنے۔

حضور علیہ السلام کا معراج فرمانا قرآن عظیم اور احادیث مبارک سے ثابت ہے۔علماء فرماتے ہیں مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک کے سفر کو “اسراء" کہتے ہیں اور یہ قرآن عظیم سے ثابت ہے اسکا منکر کا فر ہے۔ اور مسجد اقصٰی سے آسمانوں تک تشریف لےجانا اور عرش سے آگے لامکانتک تشریف لے جانا اورجنت اور دوزخ کا ملا حظہ فرمانا احادیث مبارک سے ثابت ہے اسے معراج کہتے ہیں اس کا منکر فاسق و فاجر ہے اور سخت گناہگار ہے۔

(معراج لنبی مصنف غزالی دوراںعلامہ سیداحمد سعید کا ظمی رحمتہ اللہ علیہ)

قرآن پاک میں سورہ بنی اسرائیل میں واقعہ معراج کا ذکر یوں کیا گیا ہے " پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک لے گئی جس کو ہم نےبرکت دے رکھی ہے تا کہ اپنی قدرت کے کچھ نمونے دکھائیں۔ یقینا اللہ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے۔"

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے واقعہ معراج بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں " میرے پاس براق لایا گیا جو گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جو ایک قدم اتنی دور رکھتا تھا جتنی دور اس کی نگاہ جاتی تھی، میں اس پر سوار ہوا تو وہ مجھے لے کر چلا۔میں بیت المقدس پہنچا، وہا ں دو رکعت نماز ادا کی، اسکے بعد جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے، ان کے ہاتھ میں دو برتن تھے۔ ایک میں شراب جب کہدوسرے میں دودھ تھا، میں نے دودھ کو پسند کیا تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرت کو پا لیا "۔

براق کا سفر اس تیزی کے ساتھ ہوا کہ جس تک انسان کی عقل پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ایسا لگتا تھا ہر طرف موسم بہار آگیا ہے۔ چاروں طرف نور ہی نور پھیلتا چلا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری بڑی شان کے ساتھ پچاس ہزار فرشتوں کی معیت میں مسجد الحرام سے نکلی۔ آسمانوں کے دریچے کھول دئیے گئے تا کہ آسمان کے فرشتے بھی اسریٰ کےدولہا کی برات کے دیدار سے مشرف ہو سکیں۔ایک وادی آئی جسمیں کھجور کے بے شمار درختتھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ تھی۔ پھر ایک وادی ایمن سے گزر ہوا۔ جبرائیل امین نے عرضکیا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا۔ پھر بیت المقدس آگیا۔ وہاں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء و رسل صفیں باندھے کھڑے تھے۔ امامت کا مصلہ خالی تھا۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصلے پر پہنچے تو جبرائیل امین نے اذان دی۔ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امامت فرمائی۔ مسجد اقصیٰ سے فراغت کے بعد بلندی کا سفر شروع ہوا۔ تمام انبیا ئے کرام معراج کی شب بیت المقدس میں جمع ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہوآلہ وسلم ہی تمام نبیوں کے امام ہوئے اور میدان حشر میںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے حضور سب کی شفاعت فرمائیں گے، یہی وہ مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی کو حاصلنہیں اور جس کا قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے وعدہ فرمایا۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر اسی طرح گرم تھا اوردروازے کی زنجیر بھی ہل رہی تھی۔ وضو کا پانی بھی جاری تھا۔

شب معراج کے وظائف کے متعلق حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جس نے اس دن سو مرتبہ سجان اللہ وبحمدہ پڑھا تو اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے،خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں(صیحبخاری)۔

اس مقدس سفر میں مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر رکھا گیا، اس لئے ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ نماز پابندی کے ساتھ ادا کریں اور اس کے ساتھ اسلام کے تمام ارکان کی ادائیگی بھی کریں۔