چکوال کی
سر زمین پر ایک بزرگ گزرے ، خدا والے تھے ۔ ادا والے تھے۔ باتیں اشاروں
میں کرتے تھے۔ اور اشاروں میں بڑی بڑی باتیں کہہ جا تے تھے۔ ایک دن موج میں
کہنے لگے " کشمیریوں میں وفا نہیں ہوتی۔" کسی نے عرض کی
یہ کیسے فرمایا ؟ فرمانے لگےپتھریلی زمین میں رہنے والے لوگ پتھر کی طرح
سخت ہوتے ہیں۔اور ظاہر ہےکہ وفاکی کونپلیں کسی نرم وگداز سینے پر اگتی ہیں
نہ کہ کسی دل کی سخت چٹان پر ۔ بزرگوں کی باتیں بھی بزرگ ھوتی ہیں ان کی حقیقت کا مدعا وھی بہتر سمجھتے ہیں یا وہ سمجھتا ھے جسے وہ سمجھا نا چا ہتے ہیں۔
لیکن بے
حسا ب آنکھوں کا مشاہدہ ھے کہ سنگلاخ چٹا نوں اور فلک بوس کوہساروں کے
درمیان بسنے والے کشمیریوں اور بالخصوص کوٹلی کے مکینوں کے دلوں کی بستیاں
وفا ، خلوص ، محبت، تقوی وطہارت کے لہلہا تے ھوۓ چمنستان بنی ھوئی ھیں۔
کہنےوالے شاید ٹھیک کہتے ھوں لیکن دیکھنے والے جو
دیکھہ رھے ھیں۔وہ بالکل ٹھیک دیکھہ رھے ھیں۔ لیکن یہ ھوا کیسے ؟ کہتے ھیں
مدت ھوئ کہ ان سنگلاخ وادیوں اوران بلندوبالا پہاڑوں کے سینے پر ایک خدا
شناس کے قدم لگے جنہوں نے ان "پہاڑیوں" کے سخت د لوں کو اپنی توجہ باطنی
سے ریزہ ریزہ کر دیا ۔ اخلاص سے د لوں کی زمین کو ہموار کیا پھر
اس میں محبت،وفا، خلوص، ذکر، فکر،اطاعت، عبادت،خشیت الہی کے بیج
بوۓ،توحید کے پا نیوں سے سیراب کیا۔ رسالت کے سورج کی پرنور کرنوں سے اس
کو فیض یاب کیا۔اور روحانیت و تصوف کے چاند سے عشق کے ذائقے سے ہمکنار کر
دیا۔ یہ ہستی سلطنت روحا نیت کے سلطان حضور قبلہ سلطان عالم رحمتھ اللہ
علیہ کی تھی۔ جو کشتھ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت سیدنا ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ کی اولا د میں سے تھے۔ علم و فضل کا شاہکار یہ گھرانہ
دنیاوی مناصب کو ٹھکرا کر راہ خدا کا مسافر بن گیا۔اور ایسا مسافر کہ منزل
آشنا ھو گیا۔ پھر اندھیری راھوں پر چلنے والے مسافروں کے لیے چراغ راہ بن
گیا۔
اس امت
مرحومہ کے پہلے خلیفہ کے وارث تاج و تخت کے بھی وارث رھے اور علم و عمل کے
بھی پیکر رھے۔ پھر یوں ھوا کہ علم کی شہنشا ہی نے بادشاہی چھڑا دی۔ یمن
کا تخت حکمرانی چھوڑا اور مرکز محبت مدینۃالرسول زاداللہ شرفھا (صلی اللہ علیہ و سلم ) میں آ بیٹھے ۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی مسجد تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی
باتیں تھیں۔ مدینے کی زمین تھی اور مدینے والے کا چرچا تھا۔ سبحان اللہ
کیا حسین لمحات ھوں گے کہ صاحب حدیث (صلی اللہ علیہ و سلم ) کے
قرب میں حدیث کی تعلیم جاری تھی۔ یہ سلسلہ 53 سال تک چلا ۔ اک دنیا
مستفیض ھوئی ۔ بڑے بڑے نام اور ان ناموں میں ایک نام امام الاولیا شیخ بہا
الدین زکریا ملتانی رحمتھ اللہ علیہ کا ہے جو آپ کے اجداد میں سے حضرت
شیخ کمال الدین عینی رحمتھ اللہ علیہ کے پاس رھے ۔ پھر وہاں سے ایران سے
ھوتا ھوا یہ خاندان ہندوستان میں رہتک کے مقام پر جلوہ فرما ھوا ۔ یہ جہاں
جہاں بھی گۓ اور جہاں جہاں سے گزرے علم کے فیض سے لوگوں کو منور کرتے
رھے۔ عدل و انصاف کا محکمہ ہر دور میں اس خاندان کے پاس رہا۔
پھر اسی خاندان کے ایک فرد حضرت خواجہ قاضی فتح اللہ صدیقی رحمتھ اللہ علیہ رہتک
سے میر پور تشریف لاۓ ۔ میرپور بسے اور میرپور بسا دیا۔ پھر عظمتوں کا
ایک سلسلہ چلا جس کی ایک کڑی حضرت قبلہ سلطان عالم رحمتھ اللہ علیہ کی
صورت میں عالم بشریت میں جلوہ گر ھوئی ۔ جن کے تجدیدی، روحانی ، اخلاقی
اور اصلاحی کا رناموں کا احاطہ ممکن نہیں۔ ان کے بارے میں عارف وقت ، محقق
عصر حضرت زید ابوالحسن فاروقی المعروف دہلی والے حضرت صاحب کا ایک
خوبصورت جملہ کافی ھے جو انھوں نے پاکستان اور آزاد کشمیر بھرمیں پھیلے
ھوۓ مساجد کے خوبصورت سلسلے کو دیکھـ کر فرمایا تھا۔
" میں ان کے بارے میں اور کچھـ نہیں کہتا ، ساری بہار ان کے دم سے ھے۔ "
ایک
ہی جملے میں کتنی ھی کتابوں کے عنوان سمو دیۓ ۔ اس یگانہ روزگار ہستی کے
ہاں ایک یگانہ روزگار ہستی نے جنم لیا ۔ جن کی تشریف آوری سے پہلے جن کے
چرچے تھے ۔ نام رکھا جا چکا تھا ۔ عظمتیں پہچانی جا چکی تھیں ۔ ایک
دن سنگیان طریقت کا حلقہ جما ھوا تھا کہ حضرت قبلہ سلطان عالم رحمتھ اللہ
علیہ فرمانے لگے "ہمارے ہاں رحمتوں سے نوازتے ھوۓ ایک مہمان تشریف لا رہے
ہیں۔ " کچھـ وقت گزرا تو سنگیوں کو ایک من مرضی صورت کا جلوہ دکھایا۔ پھر
فرمایا وہ آنے والے مہمان یہ تھے اور ان کا نام رکھا گیا " محمد صادق" جو زبانوں پر تقدس کے رنگ ہیں خواجہ خواجگان سر صارقاں، فخر سالکاں حضرت قاضی محمد صادق قدس سرہ کے نام سے جانا جاتا ھے۔ اور لوگ جس نام سے آشنا ہیں وہ ھے " حضرت صاحب گلہار شریف والے"
حضرت خواجہ محمد صادق صاحب رحمتھ اللہ علیہ المعروف حضرت صاحب کی ولادت 25 دسمبر 1921 کو ھوئ۔ آپ کی عمر مبارک ساڑھے بارہ سال تھی کہ9 مئ 1934 کو
والد محترم کا وصال ھو گیا۔ حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ نے کم عمری میں
سنگیوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ والدہ ماجدہ کی سر پرستی میں احسن انداز
میں سنبھالا۔
1938 میں آپ کا عقد ھوا۔ اللہ نے ایک صاحبزادے جناب حافظ عبدالواحد المعروف حاجی پیر صاحب قد س سرہ اور دو صاحبزادیوں سے نوازا۔ آپ نے دوسرا عقد 1956 میں کیا۔ دوسری شادی سے صاحبزادہ جناب حافظ محمد زاہد سلطانی قد س سرہ واحد اولاد ہیں۔
حضرت
صاحب رحمتھ اللہ علیہ کسی ادارے کی تربیت کے بغیر ایک بہترین انجینیر،
منتظم ، اور ماہرتعمیرات تھے۔ اپنے اس وصف کو انہوں نے خداکے گھر بنانے اور
اسے آباد کرنے کے لیے وقف کیے رکھا ۔ انھوں نے جتنی بھی مساجد بنوائیں ۔
ان سب کے نقشے حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ نے خود تیار کیے۔اسلام کی خدمت
کا بہترین ذریعہ مساجد بنانا اور انہیں آباد کرنا ھے۔ حضرت صاحب رحمتھ
اللہ علیہ اس پر مکمل عمل کرتے رھے۔ برطانیہ کے شہر لوشن ایلز بری میں
بھی حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ کے زیر اہتمام مساجد اور درس گاہیں آباد
ہیں۔ جبکہ مختلف شہروں کی مساجد میں جامع الفردوس سے فارغ التحصیل حفاظ
کرام خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ کے
والد محترم حضرت قبلہ سلطان عالم رحمتھ اللہ علیہ کی قبر اطہر چیچیاں
شریف میں تھی۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ آپ کے جسد اطہر کو 1967 میں
دربارعالیہ شریف کالادیو جہلم منتقل کیا گیا۔ قبلہ حضرت
سلطان عالم رحمتھ اللہ علیہ کا سالانہ عرس 9 مئی کو دربارعالیہ شریف
کالادیو جہلم میں ھوتا ھے۔ عرس کی تقریب سادہ باوقار اور اسلامی شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق منعقد ھوتی ھے۔
آپ کے جد امجد حضرت خواجہ قاضی فتح اللہ صدیقی شطاری رحمتھ اللہ علیہ(جن کا وصال 16 اکتوبر 1677 کو ھوا) کا
مزاراس وقت جامع الفردوس شریف گلہارکوٹلی میں ھے۔ آپ کا مزار میرپور میں
تھا جو منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے زیر آب آ کیا۔ 8 فروری 1985 کو آپ کا
جسد اقدس کوٹلی منتقل کیا گیا۔ آپ عہد جہانگیر میں قاضی القضاۃ کے عہدے
پر فائز رہے۔ جامع الفردوس شریف میں آپ کا مزار مرجع خلائق ھے۔ ہر روز
سینکڑوں زائرین حصول فیض کے لیے آتے ہیں۔
قبلہ
حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ نے 1962 سے ضلع کوٹلی کے اندر مساجد کی تعمیر
کا سلسلہ شروع کیا ۔ مساجد کے خوبصورت دیدہ زیب منفرد نقشے اپنے مبارک
ہاتھوں سے بناۓ۔ بعض مساجد کی تعمیر میں اپنے مبارک ہاتھوں سے بھی کام کیا۔
اور سنگیوں کی راہنمائی کی ۔ ضلع کوٹلی دنیا بھر میں "مدینۃالمساجد" کے
نام سے بھی جانا جاتا ھے۔ بیرون علاقوں سے آنے والے سیاح ساردا پہاڑی ٹیلے سے جب شہر کا نظارا کرتے ہیں تو خوبصورت مساجد کا پھیلا ھوا سلسلہ ان کی آنکھوں کو بھاتا ھے۔
قبلہ
حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ کی مساجد میں چندہ اکٹھا کرنے کا نظام نہیں۔
قبلہ حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ کے سنگی دنیا بھر کے اندر پھیلے ھوۓ ہیں۔
اگر کوئی درس شریف گلہار میں نذر نیاز لاتا تو حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ حکم
دیتے کہ فلاں مسجد کے فنڈ میں ڈال دیں۔ درس شریف گلہار سے لے کر دربار
عالیہ کالا دیو جہلم تک تمام مساجد شریعت کے عین اصولوں کے مطابق عبادت و
ریاضت ھوتی ھے۔
قبلہ حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ کا وصال 31 دسمبر 2008 رات 11 بجکر 15 منٹ پر ھوا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح کشمیر،
انڈیا ، پاکستان، انگلینڈ ، یورپ، امریکہ، خلیجی ریاستوں تک جا پہنچی ۔
راتوں رات لاکھوں سنگی چہرے مبارک کا دیدار کر سکے ۔ لاکھوں سنگی دیدار نہ
کر سکے۔
قبلہ
حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ کو یکم جنوری 2009 کو بعد نماز ظہر نماز جنازہ
کی ادائیگی کے بعد لاکھوں غم زدہ سنگیوں کی آھوں اور سسکیوں میں درس شریف
گلہار میں حضرت خواجہ قاضی فتح اللہ صدیقی شطاری رحمتھ اللہ علیہ کے
دائیں پہلو آسودہ خاک کیا گیا جہاں ہر روز ہزاروں سنگیوں کی آمد کا سلسہ
جاری ھے۔
قبلہ حضرت صاحب رحمتھ اللہ علیہ کے دونوں صاحبزادے جناب حافظ عبدالواحد المعروف حاجی پیر صاحب اور جناب حافظ محمد زاہد سلطانی قد س سرہ نے
رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ھوا ھے اور سنگیوں کو فیضان پہنچا رھے
ہیں۔ اللہ ان کی عمر اور صحت میں برکتیں دے۔ اور اس دربار عالیہ کے فیض کو
قیامت تک جاری رکھے ( آمین)
سدا بہار رھے اس با غے، کدی خزاں نہ آوے
ھو وے فیض ہزاراں تا ئیں، ہر بھوکا پھل کھاوے
-----------------------------------------------------------------------------------------------
Hazrat Qazi Pir Muhammad Sadiq Of Gulhar Sharif